مظہر سلیم



تکمیل پبلی کیشنز کےتحت ایم ۔ مبین کا دُوسرا افسانوں کا مجموعہ ” نئی صدی کا عذاب “ پیش ہے۔ اِس سےقبل اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ” ٹوٹی چھت کا مکان “ بھی تکمیل پبلی کیشنز کےزیرِ اہتمام شائع ہُوا تھا ‘ جس کی خاطر خواہ پذیرائی کی گئی ۔
ایم ۔ مبین گذشتہ دو دہائیوں سےافسانےلکھ رہےہیں ۔ اِس درمیان سب سےبڑا تغیُّر یہ واقع ہُوا کہ کہانی نےمراجعت کی ، اِس کا کہانی پن لوٹا اور تمام افسانہ نگاروں نےبھی مراجعت کا راستہ اختیار کیا اور جس طرح وہ غیر شعوری طور پر اپنےافسانوں میں علامتوں کا استعمال کرتےتھے‘ اِسی طرح اپنےافسانوں میں کہانی پن کا بھی استعمال کرنےلگے۔ اِس لئےاُن کےلئےافسانہ لکھنا ایک شعوری نہیں ‘ بلکہ غیر شعوری فعل بن کر رہ گیا ۔ اِس کےکیا اثرات ان افسانوں پر پڑے‘ میں یہاں بحث کرنا نہیں چاہتا ۔
اِس درمیان اُردو میں تو نہیں ‘ ہندی میں ایم ۔ مبین نےافسانہ نگاری میں ایک ایسا باوَقار ایوارڈ حاصل کیا ‘ جس کا اُردو میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
مرکزی حکومت کی ہندی ڈائرکٹوریٹ کا غیر ہندی داں علاقےکےہندی مصنفین کےلئے١٠٠٣ ۔ ٠٠٠ ٢ ءکا ” نیشنل ایوارڈ “ جو اُن کےہندی افسانوں کےمجموعے” یاتنا کا ایک دِن “ کےلئےوزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کےہاتھوں ٠٣ اپریل کو اُن کی رِہائش گاہ پر ایک باوَقار تقریب میں سند ، ٹرافی اور مبلغ پچاس ہزار کی رقم انعام کےطور پر پیش کی گئی ۔
قومی سطح پر کتابوں کےاِس مقابلےمیں ہر سال تین سال کی شائع شُدہ کتابوں کو شامل کیا جاتا ہے‘ جس سےکتابوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور پھر ٢٥ ججوں پر مشتمل کمیٹی ان کتابوں کی جانچ کرتی ہے۔ جو کتابیں مقابلےمیں شریک کی جاتی ہیں ‘ ان پر کہیں بھی کتاب ، مصنف اور پبلشر کا نام نہیں ہوتا ہے‘ تاکہ پوری دیانت داری سےکتابوں کی جانچ ہوسکے۔
اِتنےسخت مقابلےمیں ایم ۔ مبین کا یہ انعام پانا یہ ثابت کرتا ہےکہ ایم ۔ مبین نےافسانہ نویسی میں کمال حاصل کرلیا ہے۔ ہندی میں یہ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ تھا اور ہندی میں اُن کی صلاحیتوں اور اُن کےفن کا اعتراف کرلیا گیا ہے۔ لیکن اُردو میں نہ تو اُن کےپہلےافسانوی مجموعے” ٹوٹی چھت کا مکان “ کو کوئی ادبی ایوارڈ ملا اور نہ ہی مہاراشٹر کی اُردو ساہتیہ اکادمی نےاُن کےساتھ ادبی انصاف کیا ۔ اور مجھےپورا یقین ہےکہ اُن کےاِس دُوسرےافسانوی مجموعےکو بھی کوئی ادبی ایوارڈ نہیں ملےگا ۔ کیونکہ اُردو میں ایوارڈ پانےکےلئےجوڑ توڑ کی سیاست ، اقرباءپروری ، ذاتی تعلقات اور تلوےچاٹنا نمایاں رول ادا کرتےہیں ۔ ایم ۔ مبین کا اِن تمام باتوں سےکوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک بےضرر افسانہ نگار ، سیدھے، سچّےاور اُردوزبان و ادب کےبےلوث خدمت گار ہیں اور اپنا کام خاموشی سےکرنےکےعادی ہیں ۔ اِن تمام وسائل کی بُنیاد پر منی افسانےکےمجموعےکو انعام دیا جاسکتا ہے‘ لیکن ایم ۔ مبین کےافسانوی مجموعےکو کسی قابل نہیں سمجھا جاتا ۔
ایم ۔ مبین کےتعلق سےیہ بھی کہا جاتا رہا ہےکہ اُن کےپاس سےاب تک کوئی بڑی کہانی نہیں آئی ہے۔ مگر میں یہ بتادینا چاہتا ہُوں کہ ادب کی یہ ٹریجڈی رہی ہےکہ کون سی کہانی بڑی ، کون سی معمولی اور کون سی کہانی شاہ کار ہے۔ یہ تو شمس الرحمن فارُوقی ، گوپی چند نارنگ اور وارِث علوی جیسےنقّاد طےکرتےہیں ۔ اُن کو گولڈن ٹچ کا وَردان ہے‘ جس کہانی کو چھو لیں وہ کہانی عظیم ہوجائے۔
ایم ۔ مبین کی نسل کےافسانہ نگار ان ادبی آقاو¿ں کےدربار میں حاضری نہیں دیتے۔ اس نسل کےسبھی افسانہ نگاروں کی کوئی کہانی بڑی نہیں ہے‘ لیکن اُن کےپاس صرف ادبی دیانت داری ہے‘ جس سےکوئی بھی نقاد ، کسی اکادمی کا نامزد چیئرمین یا سکریٹری مرعوب نہیں ہوتا ۔ مگر مجھےخوشی ہےکہ ہماری نسل کےافسانہ نگاروں کےپاس خوش قسمتی سےابراہیم اشک جیسا بےباک نقّاد موجود ہے۔ ll


 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
 

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra  India)

Mob:- 09372436628)  )

mmubin123@yahoo.com