وکیل نجیب کا ناول کمپیوٹان ایک سائنس فکشن ہے۔292 صفحات کا یہ ناول اتنا دلچسپ ہے کہ اسے ایک بار قارئین پڑھنا شروع کرتے ہیں تو ختم کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ پیش ہے اس ناول پر ایم مبین کا مضمون ( ادارہ ادب نا مہ
 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اس بار تبصرے کے صفحہ پر ہم دے رہے ہیں مشرف عالم ذوقی کے نے ناول پر نہ صرف تبصرہ بلکہ ایک مکمل مضمون ۔۔(ایم مبین)

پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی
ایک جائزہ
مشتاق احمد نوری
مشرف عالم ذوقی ایک ایسےفنکار کا نام ہےجسےمیں لاوڈ تھنکر(Loud Thinker) کہتا ہوں کیونکہ اس کےذہن میں جب بھی کوئی اتھل پتھل ہوتی ہےوہ پوری کی پوری کاغذکےصفحےمیں منتقل ہو جاتی ہی۔ ذوقی ایک ایسا فنکار ہےجو صرف لکھتا ہی نہیں بلکہ وہ اپنےآپ کو منوانا بھی چاہتا ہےاس معاملےمیں بھی اس کا Approachبےحد Agressiveہوتا ہےاور اس کی کوشش ہوتی ہےکہ اسےہر حال میں تسلیم کیا جائی۔ اگر آپ اسےتسلیم نہیں کرتےتو اس کی ناراضگی جھیلنےکےلئےبھی تیار رہنا چاہئی۔
”پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی“ ذوقی کا تازہ ترین ناول ہی۔ نام سےیہ محسوس ہوتا ہےکہ اس میں سونامی سےمتعلق گفتگو ہوگی لیکن صرف ایسا نہیں ہےبلکہ اس ناول کی شروعات کلکتہ کی زمین سےہوتی ہےجہاں بہار سےاحمد علی نام کا ایک نوجوان روزی کی تلاش میں کلکتہ جاتا ہےاور وہاں کامریڈ احمد علی بن جاتا ہی۔ سدیپ سانیال کی سرپرستی میں انڈرگرائونڈ کامریڈ لوگ ریڈ انڈین جوٹ مل سےمتعلق مسائل کےحل کےلئےکوشاں رہتےہیں۔ نکسل تحریک سےوابستہ یہ لوگ اس کےپرسنل منیجر کشواہا کا خون کرنےکی ِمہ داری کامریڈ احمد علی کو سونپتےہیں۔ کامریڈ احمد علی جو دیپ سانیال کی بیٹی ادیتی سانیال کےعشق میں گردن تک ڈوبا ہوا ہےوہ کشواہا کا قتل کرنےکےبجائےاس کےگھر جاکر اس کی لڑکی کو الرٹ کردیتا ہی۔ حالانکہ نکسل تحریک میں غداری کی سزا موت ہوتی ہےلیکن سدیپ سانیال کی وجہ سےاس کی جان بچ جاتی ہی۔ بعد میں سانیال کےچھوٹےبھائی چاروسانیال کی وجہ سےاس کی شادی ادیتی سانیال سےہو جاتی ہی۔ احمد علی اپنی زندگی کا بقیہ حصہ نکسل تحریک کےسائےسےدور بتانےکےلئےدہلی آجاتا ہی۔ کتاب کے146صفحات میں کلکتہ کی زندگی نکسل تحریک، احمد علی اور ادیتی کی محبت وغیرہ کا ذکر ملتا ہی۔
اس کےبعد ”شاہ پور کی چھولاداری اور خانقاہ والےحصےمیں پروفیسر کی آمد ہوتی ہے۔ جو وہاں کےفادر امبورسیو کی پرانی خانقاہ کو اپنی رہائش کےلئےخرید لیتا ہی۔ اسی خانقاہ کےسامنےاحمد علی نےاپنا مکان بنوایا ہےار پرویز سانیال کےروپ میں ان دونوں کی محبت سامنےآتی ہی۔ پروفیسر ایس کا پورا نام صدرالدین پرویز قریشی ہےوہ عجیب پُراسرار شخصیت کا مالک ہی۔ انتہائی خوبصورت سفید چہرہ، ہلکی گھنی داڑھی، آنکھوں پر چڑھا ہوا سیاہ چشمہ کالےرنگ کا سوٹ، سفید شرٹ، خوبصورت نیک ٹائی، کالےرنگ کا جوتا، قد چھ فٹ سےکچھ ہی کم پوری شخصیت میں ایک ایسا جادو تھا جو بھی اُسےدیکھتا ا س کا مرید ہو جاتا۔ پورےناول میں پروفیسر کی پُراسرار شخصیت چھائی ہوئی ہےاور اس کےکردار کےکئی پہلو سامنےآتےہیں۔ پروفیسر ایس ایک ادیب بھی ہی۔بڑی ملائمیت سےگفتگو کرتا ہےلیکن اپنی فطرت کےاعتبار سےوہ بےحد سفاک ہی۔ وہ اپنےبہنوئی کا قتل صرف اس لئےکردیتا ہےکہ وہ اس کےکئی راز سےواقف ہوگیا تھا۔ پروفیسر ایس نرگیسیت کا بھی شکار ہی۔ اس کی خود پسندی کی انتہا یہ ہےکہ اس نےاپنےکمرےمیں اپنی بڑی بڑی تصویریں بنواکر دیوار پر لٹکائی ہوئی ہیں۔وہ اپنی پہلی بیوی حمیدہ کو چھوڑ کر مسجد کےامام کی ایک کم سن لڑکی سیما کو اپنی بیوی بنالیتا ہی۔ گرچہ وہ اس سےبہت دھیمےلہجےمیں گفتگو کرتا ہےلیکن اس سےبےانتہا سفاکی سےپیش آتا ہی۔ اس کی عیاشی کی انتہا یہ ہےکہ عورتیں ایک مخصوص عمر کےبعد اسےاچھی نہیں لگتیں۔ پروفیسر ایس نےادب کےبہت بڑےمافیا لوپی چند سیب کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہےکہ پروفیسر ایس کےپاس لوپی چند کی ایک ایسی تصویر ہےجس کےمنظرعام پر آجانےسےاس کی عزت کا فالودہ بن سکتا ہی۔ اسی ڈر سےوہ اسےاکادمی کےبڑےانعام سےنوازتا ہی۔ پروفیسرایس خانقاہی اور احمد بشیر کی مدد سےایک ادبی رسالےکا اجرا¿ بھی کرتا ہی۔ خانقاہی اگرچہ بےحد ذہین اور مذہبی بیک گرائونڈ کا لڑکا ہےلیکن پروفیسر کی صحبت اسےشراب کا رسیا بنادیتی ہی۔
شاہ پورچھولہ داری میں رہنےوالا ڈاکٹر اجےپروفیسر ایس کےبارےمیں طرح طرح کی خبریں اڑاتا ہی۔ اس علاقےکےلئےاسےمنحوس قرار دیتا ہےلیکن احمد علی اپنےبیٹےپرویز سانیال کی پرورش پروفیسر ایس کی نگرانی میں کروانا چاہتا ہےاور ایک دن وہ پروفیسر سےاس سلسلےمیں بات بھی کرتا ہی۔ پروفیسر ایس پرویز سانیال کو اپنی تربیت میں رکھنےکےلئےکچھ شرائط پیش کرتا ہےجو اس طرح ہیں:-
”پرویز کو میں کسی ملکیت کی طرح اپنی تحویل میں لوں گا اور آپ اس سےکوئی رابطہ نہیں رکھیں گےاور کچھ پوچھیں گےنہیں....
پرویز آپ سےزیادہ میری پراپرٹی ہوگا، میری ملکیت........
آپ کبھی بھی ہمارےیا پرویز کےدرمیان نہیں آئیں گی۔“
احمد علی اپنےبچےکو پروفیسر ایس جیسا بنانا چاہتا ہےاس لئےوہ ان شرائط کو مان لیتا ہےلیکن پرویز کی ماں آدیتی سانیال ان شرطوں کو سن کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہی۔ پروفیسر ایس اپنےانداز میں پرویز کی تربیت کرتا ہےاس دوران پرویز سانیال پروفیسر کی کم سن بیوی سیما پر ہورہےظلم سےبھی واقف ہو جاتا ہی۔ پروفیسر اتنا سخت گیر ہےکہ وہ سیما کو کسی کےسامنےآنےنہیں دیتا۔ ایک بار خانقاہی پیاس کی شدت میں بھابھی کہتےہوئےاندر گیا تھا اور سیما نےاسےپانی کا گلاس بڑھایا تھا اس چھوٹی سی ”غلطی‘’ کےلئےپروفیسر نےسیما کےبدن کو سلاخوں سےداغ دیا تھا۔ وہ سیما کو اپنی حویلی میں بےلباس دیکھنا چاہتا تھا اور اسی بےلباسی میں وہ اس کےلئےچائےیا کافی بھی بناتی تھی۔ اسی درمیان پروفیسر کی ملاقات ایک خوش شکل نوجوان فوقی سےہوتی ہےجو کسی زمانےمیں کہانیاں لکھتا تھا مگر اب وقت کےساتھ چھوٹےپردےکی دنیا کو اس نےاپنی دنیا بنالی تھا۔ فوقی کی مدد سےوہ سی ٹی وی کےلئےاپنی پروجیکٹ جمع کرتا ہےلیکن وہاں کا انچارج بالم سرشاری پروفیسر کو اسمگلر کہہ کر اس کےپروجیکٹ کو لینےسےانکار کرتا ہےلیکن فوقی کی پیروی سےاسےوہ رکھ لیتا ہےبعد میں پروفیسر جموں کی ایک شاعرہ کنول ڈیسائی کو بالم سرشاری کےپاس بھیجتا ہےاور نگار زیدی کو نوٹوں سےبھرا بیگ دےکر اس بات کےلئےراضی کرلیتا ہےکہ وہ سی ٹی وی کا سارا پروگرام صرف اسےہی وی۔ اس طرح وہ بری خوبصورتی سےاپنےمحسن فوقی کا پروجیکٹ سی ٹی وی سےردّ کروادیتا ہی۔
پرویز سانیال بچپن سےہی شیلی کےساتھ کھیلتا کودتا ہوا بڑا ہوتا ہی۔ دونوں ایک دوسرےکو پسند بھی کرتےہیں۔ آدیتی سانیال بھی اس جوڑی کو پسند کی نگاہ سےدیکھتی ہےلیکن وقت کو کچھ اور منظور ہوتا ہی۔ پرویز سانیال پروفیسر کی صحبت میں اس طرح گرفتار ہوتا ہےکہ وہ شیلی کی محبت کو ٹھکرا دیتا ہےاور شیلی کی شادی کسی اور سےہو جاتی ہی۔ اس دوران آدیتی سانیال کی موت بھی ہو جاتی ہی۔ ماں کی رحلت پر وہ بکھر جاتا ہےلیکن اس کا باپ اسےگلےلگاتےہوئےدھیرےسےکہتا ہی:
”رومت بیٹےماں کو ہمیشہ کےلئےاپنےاندر زندہ کرلو اور اندر کےآسیب کو باہر کردو۔“
ناول کےتیسرےحصےمیں اکیسویںصدی کےسب سےہولناک حادثےسونامی کا ذکر ہےاور اس پورےباب میں سونامی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ پروفیسر، پرویز سانیال کےساتھ ہر اُس جگہ جاتا ہےجہاں جہاں سونامی نےقہربرپا کی ہی۔ اس سلسلےمیں تفصیلات اتنی زیادہ ہیں کہ کبھی کبھی اس پر رپورنگ کا گمان گزرتا ہی۔
پروفیسر کو ایک عجیب سی بیماری بھی ہےوہ بند کمرےمیں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا۔ اس کا دم گھٹنےلگتا ہی، سانس اکھڑنےلگتی ہی۔ اس پر غشی طاری ہو جاتی ہےاور اسےایسا محسوس ہوتا ہےکہ گھٹن سےاس کا دم نکل جائےگا۔ یہی وجہ ہےکہ نہ تو وہ طیارہ میں سفر کرسکتا ہےنہ ہی ٹرین کےاےسی بوگی میں۔ انتہا یہ ہےکہ وہ اُس باتھ روم میں جس میں کھڑکیاں نہ ہوں اس میں بھی گھٹن محسوس کرنےلگتا ہی۔ سونامی سےمتاثرہ علاقےکےدورےکےدوران پروفیسر کےاندر کی سفاکی پرویز سانیال پر ظاہر ہو جاتی ہےاور وہ اس سےدور ہونےلگتا ہی۔ دہلی واپس ہونےتک اس میں ایک نمایاں تبدیلی ہو چکی ہوتی ہےاور جب وہ گھر واپس آتا ہےتو شفیق والد احمد علی پر بھی پروفیسر کی حقیقت واضح ہوچکی ہوتی ہےاور وہ اس سےنفرت کرنےلگتا ہی۔ اسی دوران مختصر علالت کےبعد احمد علی کا انتقال ہوجاتا ہےاور پرویز سانیال اس دنیا میں اپنےآپ کو اکیلا محسوس کرنےلگتا ہی۔ موت کی خبر سن کر شیلی بھی آتی ہےاور بےاختیار پرویز سےلپٹ جاتی ہے۔جذبات کےسارےبندھ ایک ساتھ ٹوٹ جاتےہیں لیکن پرویز باپ کےغم میں اس طرح بےحال ہےکہ وہ شیلی کےاُکسانےکےباوجود اپنےآپ پر قابو پانےمیں کامیاب ہوتا ہی۔اس دوران پروفیسر لوپی چند سیب کےبلاوےپر دو دن کےلئےدہلی کا رخ کرتا ہےجہاں اس کےاعزاز میں ایک میٹنگ ہونےوالی ہےجہاں پروفیسر اپنےدورےکی داستان سناکر لوگوں کی واہ واہی لوٹنےکا متمنی رہتا ہی۔ وہ دو دن دہلی میں رہتا ہےاور یہی دو دن اس کی زندگی پر بھاری پڑ جاتےہیں۔ سیما اور پرویز سانیال مل کر اس کی موت کا سامان اکٹھا کرتےہیں۔ فادرامبروسیو کی عبادت گاہ میں جس کی دیواروں پر پروفیسر کی پینٹنگ سجی ہوئی ہیں ایک پینٹنگ کےپیچھےدوکھڑکیاں بھی ہیں جس سےپروفیسر کو اطمینان رہتا ہےکہ وہ اس میں محصور نہیں ہی۔ پرویز اور سیما مل کر اس کمرےکی کھڑکیوں کو نکال کر وہاں دیوار بنادیتےہیں اور دہلی سےواپسی پر جب پروفیسر اپنےکمرےمیں جاتا ہےتو سیما باہر سےکنڈی لگا کر اس میں تالا جڑ دیتی ہےپھر دونوں وہیں بیٹھ کر کمرےکےاندر پروفیسر کی بےبسی کا لطف لیتےہیں۔ پروفیسر کی عجیب بیماری اس پر حملہ آور ہوتی ہےاور اس طرح پروفیسر ایس کی عجیب داستان اپنےاختتام تک پہنچتی ہی۔
پروفیسر صدرالدین پرویز قریشی کی شخصیت سےاس کا کالا چشمہ ہمیشہ چپکا رہتا ہی۔ نفسیاتی طور پر جو لوگ مادیت پسند ہوتےہیں وہ کسی سےآنکھ ملانےکی جرا¿ت نہیں رکھتےاسی لئےہمیشہ اپنی آنکھ کو کالےشیشےمیں چھپائےرہتےہیں۔ پروفیسر کی پوری شخصیت ایک کولڈ بلڈیڈ(Cold Blooded) مادیت پسند کےطور پر اُبھرتی ہےجو اپنی کامیابی کےلئےکسی بھی حد کو پار کرنےکےلئےتیار رہتا ہی، جہاں نہ رشتہ آڑےآتا ہی، نہ ضمیر سامنےآتا ہی، انتہا یہ ہےکہ دوستی اور وفاداری بھی اپنا اثر نہیں دکھاپاتی۔
یہ پورا ناول دو حصےمیں بٹا ہی۔ پہلا حصہ احمد علی کی زندگی کا وہ حصہ ہےجو اس نےاپنی جدوجہد کےدوران کلکتہ کےنکسل تحریک کےسائےمیں گزاری ہےاور دوسرا حصہ پروفیسر صدرالدین قریشی کا ہی۔ بظاہر دونوں حصےمیں کوئی تال میل نہیں ہےلیکن احمد علی کےبیٹےپرویز سانیال کو اس کہانی کا حصہ بننا ہےاس لئےدونوں حصےمیں ایک ربط پیدا ہو جاتا ہی۔ کلکتہ کی نکسل تحریک احمد علی اور آدیتی سانیال کی محبت اور احمد علی کےاندر چھپےایک سچےانسان کی کہانی بڑی روانی کےساتھ ہمارےسامنےآتی ہےاگر یہ پورا ناول ہی نکسل تحریک پر مبنی ہوتا تو ا س کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا لیکن شاید اس ناول کا مقصد پروفیسر ایس کی عجیب وغریب شخصیت کو قارئین کےسامنےلانا تھا اس لئےکہانی میں پروفیسر کی آمد ہوتی ہی۔
صدرالدین پرویز قریشی پروفیسر کہلاتا ضرور ہےلیکن پورےناول سےاس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کب ،کہا ںاور کس کالج کا پروفیسر رہا ہی۔اس ناول میں جتنےکردار سامنےآئےہیں اس کےبارےمیں صفحہ دس پر اس بات کا اعتراف کیا گیا ہےکہ یہ سارےنام اور کردار فرضی ہیں لیکن اس ناول کےکردار کےپردےسےکچھ جانی مانی شخصیتیں بھی ابھر کر قارئین کےسامنےآجاتی ہیں۔
اس ناول میں جزویات نگاری پر ذوقی کو کمال حاصل ہےخصوصاً جہاں سونامی کےتذکرےہیں وہاں کی جزویات نگاری ایسی ہےکہ وہ ساری ہولناکی پھر سےہمارےسامنےآجاتی ہےجس کےذکر سےہی رونگٹےکھڑےہو جاتےہی اور یہی وجہ ہےکہ اس پر رپورٹنگ کا گمان ہونےگتا ہی۔ پروفیسر ایس کی شخصیت کو ڈھالنےمیں ذوقی نےکافی محنت کی ہےاور ہمارےسامنےایک ایسا کردار اُبھرتا ہےجو ایک نرم گفتار، بےحد پُرکشش شخصیت کا مالک، اپنی تحریروں سےجادو جگانےوالا، لوگوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانےوالا، ذہین لوگوں کا استحصال کرنےوالا اور جنسی طور پر بےحد سفاک شخص ہمارےسامنےآتا ہی۔ گرچہ پروفیسر ایس پرویز سانیال کو اپنا مستقبل بنانا چاہتا ہےلیکن اپنی تمام تر کاوشوں کےباوجود وہ پرویز کےاندر اپنی سفاکی منتقل نہیں کرپاتا۔ پرویز اپنےدس سالہ تجربےمیں پروفیسر سےشدید نفرت کرنےلگتا ہی۔ انتہا یہ ہےکہ وہ اسےپستول سےقتل کرنا چاہتا ہےلیکن پروفیسر کی کم سن بیوی سیما جو پل پل اس کےساتھ مرتی رہی ہےاور پرویز کی باہوں میں جاکر زندگی کا نشہ حاصل کرچکی ہےوہ اسےپستول سےمارنےکےبجائےاس کی عجیب سی بیماری میں مبتلا کرکےمارنےکا پلان بناتی ہی۔ ایسےسفاک شخص کا انجام کچھ ایسا ہی ہوتا ہی، جب اس کےبےحد قریب والےلوگ ہی اس کےخاتمےکا سبب بنتےہیں۔
ذوقی کی نثر میں کوئی الجھائو نہیں ہےاس میں روانی بھی ہےلیکن جذبات کی طغیانی بھی بہت ہی۔ جس پر اگر قابو پالیا جائےتو اس سےبہتر ناول سامنےآسکتا تھا۔ 520صفحات کی یہ کتاب بےحد خوبصورت چھپی ہےاور اس کےسرورق پر ایک ایسی تصویر کی جھلک موجود ہےجسےسونامی کےدوران کھینچےگئےسب سےبہتر تصویر کی شکل میں منتخب کیا گیا تھا۔ پشت پر ذوقی کی بےحد پُرکشش تصویر ہےجس پر پروفیسر ایس کا سیاہ چشمہ ان کی آنکھوں پر نظر آرہا ہےشاید پروفیسر کےانتقال پُرملال کےبعد اس کا سیاہ چشمہ ان کےہاتھ لگ گیا ہوگا۔
مشرف عالم ذوقی اس خوبصورت ناول کےلئےمبارک باد کےمستحق ہی۔ ان میں لکھنےکی بےپناہ صلاحیت موجود ہی۔ ان جیسی بےباکی اور راست گوئی سب کےنصیب میں نہیں ہوتی۔ ادب کےتئیں ذوقی کا ایک خاص نقطہ نظر بھی ہےجو ان کی تحریروں میں نظر آجاتا ہی۔ مستقبل میں ذوقی سےاس سےبھی بہتر ناول کی امید کی جاسکتی ہی۔
”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہےساقی“
مشتاق احمد نوری
37/60،آفیسرفلیٹ
بیلی روڈ،پٹنہ1-(بہار)


 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dit.Thane( Maharashtra,India)

Phone:-(02522)256477

Email:-mmubin@email.com